Key of Happy life / خوش رہنےکے سنہری اصول
آج کا دور، گوناگوں مصروفیت کا دور ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم اپنے بزروگوں کے پاس بیٹھ کر ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی (اس زمانے میں پریشانیاں چھوٹی ہی ہوتی تھی) کا تذکرہ کرتے تھے تو بزرگ کوئی نہ کوئی حل نکال لیتے تھے۔ ۔ ۔
ہمارے بزرگ الہ دین کے چراغ کی ماند ہوتے تھے، اِدھر بات کی اُدھر حل نکل آیا یا اور نہیں تو کم از کم تسلی اور ڈھارس ہی باندھ دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ایک زمانہ بیت گیا ہے ۔ اب یہ باتیں پرانے دور کی کسی کہانی کی ماند لگتی ہیں۔ ۔ ۔ آج جب اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو افرا تفری کا طوفان نظر آتا ہے۔ لالچ، حرص اور لا یعنی مصروفیت نے انسانی زندگی سے خوشیاں چھین لی ہیں۔ ۔ خیر، میں کچھ زیادہ فلسفہ جھاڑنا نہیں چاہتا، بس ایک بات آپ کے گوش گزار کرتا چاہتا ہوں کہ آپ اس قدر مصروف ہوتے ہوئے بھی زندگی کی حقیقی خوشیاں کو کس طرح پا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
الف۔۔ ۔ ۔ ہمیشہ پر امید رہیں۔ ۔ ۔ بات کی وضاحت کے لیے کچھ مثال دینا چاہوں گا۔ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو ماں کے ساتھ تشبی دی ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ماں محبت کا پیکر ہے، وہ اپنی اولاد کو ہمیشہ خوش خرم دیکھنا چاہتی ہے، کبھی اپنے پچوں کا دل نہیں دکھتانی، مجھے کھل کر بات کرنے دیجئے، کئی مرتبہ دیکھا کہ کھانے کی چیز قلیل مقدار میں ہو تو ماں کہتی ہے کہ میں یہ پسند نہیں کرتی یا بھوک نہیں لگی کا بہانہ کر کے اپنے بچوں کو اپنے اوپر فوقیت دیتی ہے۔ اپنی اولاد کو کبھی ناجائز تنگ نہیں کرتی۔ اتنی رحیم اور شفیق ہونے کے باوجود ماں کی اوقات کیا ہے؟ ہاں جی، اگر آپ ماں سے ہنس کر بات کر لو، وہ خوشی سے نہال ہو جاتی ہے، وہ آپ کی بیگم کی طرح (یہاں بیگمات کا برسبیل تذکرہ آ گیا یا یوں سمجھ لیں کہ مثال دینے کے لیے ضروری گیا) آپ سے کوئی مطالبہ نہیں کرتی۔ اگر آپ گھر سے دور ہوں تو آپ کو اس کا تجربہ ہو گا کہ اگر آپ ہر دوسرے دن ماں کو فون کر لیں تو وہ نہال ہو جاتی ہے صرف یہ جان کر کہ اس کا بیٹا خوشحال ہے۔ ماں کی محبت اللہ کی محبت کے سامنے بہت ہقیر ہے یا یوں کہیں کہ اس کا ایک فی صد بھی نہیں۔ ماں ، جو مخلوق ہے، خود بھی مجبور ہے اس کے باوجود محبت کا پیکر ہے تو وہ اللہ جس نے اس انسان کوا پنے ہاتھ سے بنایا اور کہا کہ بے شک ہم نے انسان کو سب سے خوبصورت مخلوق بنایا ہے۔ زرا ماں اور اللہ کا موازنہ کیجیے۔ ماں کمزور اور بے بس، ہماری طرح انسان مگر محبت میں لاجواب۔ اور دوسری طرف اللہ ہے جو سپر پاور، ہر چیز پر قادر ہے اتنی بڑی قوتوں کا مالک ہونے کے باوجود اللہ کہتا ہے ' يا ايها الانسان ما غرك بربك الكريم ' یعنی اے انسان تجھے اپنے رب سے دھوکے میں کس چیز نے ڈال دیا۔ جب ایک ماں اپنی اولاد کو ناجائز تنگ نہیں کرتی تو اللہ بھلا کسی کو کسے تنگ کرے گا۔ مزید براں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ وہ بندے کے گمان کے پیچھے ہوتا ہے یعنی جیسے بندہ سوچتا ہے چیزیں ویسے ہو ہوتی ہیں۔ لہذا اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور ہمیشہ اللہ سے خیر کی امید رکھیں، االہ تعالی آپ کو کبھی مایوس نہیں کریں گے۔ سوچنے کی بات ہے اللہ کے پاس خزانوں یا خوشیوں کی کونسی کمی ہے جو آپ کو عطا کرنے سے کم پڑ جائیں گی اور نہ ہی تو اللہ بخیل ہے۔ اللہ سخی اور عطا کرنے والے ہیں ۔ اللہ اپنے بندوں کوخوش دیکھنا چاہتے ہیں، پس آپ سے دوخواست ہے کہ ہمیشہ اپنے رب سے امید رکھیں اورکبھی مایوس نہ ہو،
ب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بانٹ کر کھائیں۔ ۔ یہ چیز بظاہر معمولی نظر آتی ہے لیکن بانٹ کر کھانے اور دوسروں کی ضرورت پوری کرنے میں جو لذت ہے وہ دنیا کی کسی چیز نیں آپ کو نہیں مل سکتی۔ دوسورں کی مدد کیجیے اور بس کرتے جائیں۔ ۔ ثواب کے لالچ سے نہیں، اس بات کے مدنظر کے آپ کی وجہ سے کسی کی کوئی مشکل آسان ہو جائے گی، اپنے قرب اجوار اور خاص کر اپنے رشتہ داروں کو دیکھیں، کسی غریب کو کاروبار شروع کرنے میں اس کی مدد کر دیجیے، کسی بے روزگا کو ریڑی یا حثیت کے مطابق رکشہ وغیرہ لے دیجیے، غیرب کے گھر راشن دینا تو شاید کوئی مشکل کام نہیں، موبائل کا نیا ماڈل لینے سے بہتر ہے کہ کسی غریب کی ضرورت پوری کر دیجیے، اس میں جو لذت آپ کو حاصل ہو گی وہ دینا کی کسی نعمت میں نہیں رکھی۔ اپنے ہاتھ سے لوگوں کو دیجے اور پھر دیکھیے اللہ تعالی آپ کو کیسے خوشیاں نصیب کرتا ہے۔ آپ ایک وقت بھوکے رہ کر بھی ایسی خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں جس کا تصور ہی محال ہے۔ خود پر اعتماد، دوسرں کو اپنے اوپر ترجیع دینا نہ صرف اسلام کے سنہری اصول ہیں بلکہ زندگی گزارنے کے رہنما اُصول بھی ہیں۔
آخر میں گزارش ہے کہ یہ تحریر میری ذاتی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کی عکاسی کرتی ہے، کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، البتہ میں ایک خوش حال زندگی گزار رہا ہوں اور یہی میرے خیالات کے مثبت ہونے کی دلیل ہے۔
9 juillet 2018